PRAYER TIMES IN PARIS

20110413

لاہور دیکھنا ہو تو۔۔

تنہائی پسند مصور شاہد جلال نے لاہور کے دو باغوں کے حسن کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ انھیں دوام مل گیا ہے۔
یہ باغ لاہور کے لارنس گارڈنز اور لینئر پارک ہیں۔ ان میں سے لارنس گارڈنز تو ایک معروف باغ ہے جب کہ لینئر پارک ماڈل ٹاون نامی علاقے میں واقع ہے اور قدرے کم معروف ہے۔
اگر شاہد جلال کی پینٹنگز کو دیکھ کر آپ کے دل میں ان باغوں کو دیکھنے اور اس حسن کو محسوس کرنے کی خواہش پیدا ہو، جس کا قوی امکان ہے تو یہ نہ بھولیے گا کہ اس کے لیے آپ کو آنکھیں شاہد جلال سے مانگنی ہوں گی۔
کیونکہ ان کی پینٹنگز میں باریکیوں اور ٹیکسچر سے جو لگاؤ، رنگوں میں گہرائی اور دھیماپن ہے وہی خود شاہد جلال کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ حسن، رنگ، روشنی اور سائے جو انھیں دکھائی دیے اور جو وہ ہمیں دکھاتے ہیں ان کا بڑا حصہ خود شاہد جلال ہی کا باطن ہو۔
اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔
کراچی کی آرٹ گیلری آرٹ سین میں جاری نمائش میں شاہد جلال کی بتیس پینٹنگز لگائی گئی ہیں اور ان کے ‏زیادہ تر‏‏‏‏ کینوس مستطیل نما اور کم و بیش 3042x اور 36x30سائز کے ہیں۔ وہ محتاط اور چھوٹے سٹروک لگاتے ہیں اور یہی ان کے انداز اور اسلوب کی اہمیت ہے۔
ان کے ایک نقاد نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ان کی ینٹنگز میں آسمان بہت کم دکھائی دیتا ہے اور حقیقت تو یہ کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ بھی کونوں کھدروں میں چھپا ہوا، اور توجہ سے محروم، ملگجا سا نیلگوں سلیٹی، پس منظر کے عقب سے جھانکتا، ڈرا سہما جیسے کوئی بچہ، جو سامنے آنے سے گھبرا رہا ہو۔
شاید شاہد جلال کو دونوں باغوں کے پودوں، درختوں، راستوں، راہداریوں، جگہ جگہ پانی کے لیے بنائی گئی گذر گاہوں، پلیوں، جنگلوں اور بوگن ویلیا سے ڈھکی دیواروں میں اتنی کشش محسوس ہوتی ہے کہ ان کی نظر آسمان کی طرف جاتی ہی نہیں۔
غالباً شاہد جلال کے لیے کینوس ایک کھڑکی یا آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ آئینہ یا کھڑکی کسی بالائی منزل میں نہیں بلکہ اس طرح ہیں کہ انھیں منظر کو دیکھنے کے لیے سر اٹھانا یا جھکانا نہیں پڑتا۔ یہ زاویہ مصور کو اپنے موضوع سے قربت اور شمولیت کا تعلق دیتا ہے اور یہی تعلق شاہد جلال کی پینٹنگز میں محسوس بھی ہوتا ہے۔
شاہد جلال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم گو اور کم آمیز ہیں لیکن انھیں یہ بات ضرور بتانی چاہیے کہ وہ اپنی پینٹنگ کا کتنا حصہ سٹوڈیو میں بناتے ہیں۔
اس نمائش میں جن پینٹگز کی نمائش کی جا رہی ہے وہ انھوں نے تین سال کے عرصے میں بنائی ہیں۔
بالعموم وہ سال بھر میں کوئی بیس کے قریب پینٹنگز بناتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک پینٹنگ پر اوسطاً پندرہ سے بیس دن لگاتے ہیں اور جس قدر اور جیسی روشنی اور سایوں سے ان کی پینٹنگ کے رنگ اور باریکیوں کی تفصیلات اجاگر ہوتی ہیں وہ روشنی اور سائے روزانہ ایک سے نہیں رہتے۔
اس نمائش میں موجود پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر شاہد جلال ایک امپریشنسٹ ہیں اور ان کی پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے اگر ذہن میں مونے، رینائر، پسارو، ڈیگاس اور سسلے کی پینٹنگز یاد آتی ہیں تو اسے ان کی کمزوری نہیں کہا جا سکتا۔
شاہد جلال کو ان مصوروں سے ایک خاص نسبت ہے اور وہ غالباً یہ ہے کہ ان کی آنکھیں بھی منظر کو ایسے دیکھتی اور تفصیلات محفوظ کرتی ہیں جیسے کیمرے کا لینس کرتا ہے لیکن کیمرہ تمام تفصیلات کو جوں کا تو واپس کرتا ہے جب کہ مصوری میں مصور کی محسوسات رنگوں اور سٹروکس میں شامل ہو کر انھیں ایک نئی شکل دے دیتی ہیں۔
شاہد جلال
شاہد جلال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم گو اور کم آمیز ہیں
انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہونے والی تاثریت کی تحریک کے تمام مصور باہر جا کر مصوری کرتے تھے اور روشنی کو محفوظ کرنے کے لیے کیوں کہ انھیں تیز رفتاری سے کام کرنا ہوتا تھا تو وہ ان تقاضوں کو نظر انداز کر دیتے تھے جو رئیلزم یا حقیقت پسندی کے تحت کیے جاتے تھے لیکن بعد میں جب انہی مصوروں نے پورٹریٹ بنائے اور سٹل لائف مصوری کی تو ایک نیا اسلوب سامنے آیا اور یہ اصول بنا کہ حقیقت کے بر خلاف مجموعی تاثر زیادہ اہم ہوتا ہے۔
اس بات نے بعد میں بیسویں صدی کے دوران شروع ہونے والی جدید مصوری کی تمام تحریکوں کو شدید متاثر کیا۔
شاہد جلال پورٹریٹ یا سٹل لائف کرتے ہیں یا نہیں، مجھے اس کا علم نہیں لیکن اگر وہ کرتے ہیں تو ان کا کام دیکھنا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

No comments:

Post a Comment

Note: Only a member of this blog may post a comment.