قوم کب جاگے گی؟
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ ـ
میرے پاس ہمیشہ اُمیدوں، مسکراہٹوں اور تمناﺅں کا وافر خزانہ موجود ہوتا ہے جسے میں اکثر اپنے قارئین و ناظرین کی نذر کرتا رہتا ہوں۔ حالات کتنے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں، رات کی تاریکی کتنی گہری اور گھمبیر کیوں نہ ہو میں نویدِ صبح لاتا ہوں اور رشتہ ¿ امید ٹوٹنے نہیں دیتا مگر اب کچھ دنوں سے سیاست، معیشت اور معاشرت کا سیاستدانوں نے جو حال بلکہ جو حشر کردیا ہے اس سے خود میں گہری تشویش میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان کی معیشت کو 53 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔اس دوران امریکہ نے پاکستان کونقد صرف 11ارب ڈالر دئیے ہیں۔اپنے اڑوس پڑوس کے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ذرخیز زمین اور بے بہا قدرتی وسائل رکھنے والا ملک پاکستان بد ترین قسم کی مہنگائی سے دوچار ہوچکا ہے۔
گزشتہ تین برس کے دوران پاکستانی معیشت کی شرح نمو صرف 2.6 فیصد رہی ہے جوکہ اب گھٹ کر 2فیصد سے بھی کم ہوجائے گی۔ جبکہ بھارت اور سری لنکا کی شرح نمو 8فیصد سے بھی زیادہ ہے۔تین سال پہلے آٹا 13روپے کلو تھا مگر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کی تین سالہ حکومت کے بعد آٹا 35 روپے کلو ہوگیا ہے جبکہ پیاز 15روپے سے 75 چینی 21 روپے سے 92،چاول48 روپے سے 110 دودھ 32 سے 60 روپے کلو ہوگیا ہے۔ پٹرول 54 سے بڑھ کر 80 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ بجلی بند، گیس بند، پٹرول بند، پانی بند ہے۔لوگ جائیں تو کدھر جائیں۔پنجاب میں 38 روز تک ڈاکٹروں کی ہڑتال رہی۔ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ نوکر شاہی بد ترین قسم کی انا پسندی کا شکار رہی۔ پنجاب حکومت سے کسی اور فردکو حقیقی کیا کوئی غیر حقیقی اختیار بھی حاصل نہیں‘ لہٰذا جب 38روز کے بعد وزیراعلیٰ کو خیال آیا تو انہوں نے ینگ ڈاکٹرز سے مذاکرات کئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُنکے معاملات ہمدردی اورتوجہ سے حل کرلئے جائینگے تو معاملہ سلجھ گیا۔ پرسوں لاہور کے جم خانہ کلب میں پنجاب حکومت کے ایک اہم ” ستون“ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے مذاکرات کی یہی تجویز ہڑتال کے تیسرے روز میاں شہباز شریف کو دی تھی مگر میاں صاحب نوکرشاہی کے سحر میں گرفتار تھے اس لئے انہوں نے ہماری بات پر توجہ نہ دی اس لئے معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پنجاب حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال 13اپریل سے غیر معینہ مدت کیلئے شروع ہوجائےگی۔ خادم پنجاب فوری طورپر اس طرف توجہ دیں۔ مگر وہ اس وقت ڈرون حملوں جیسے بڑے بڑے کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ بیچارے ذلیل و خوار ہوتے ہوئے عوام کے دکھ در د کو محسوس کرنے کا وقت ان کے پاس نہیں۔
پنجاب میں بد ترین قسم کی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور اب سی این جی سٹیشنز اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال نے پنجاب کی معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کا بلامبالغہ80فیصد حصہ بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔پنجاب میں جگہ جگہ شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ان تمام حالات کا نوکر شاہی ایک ہی علاج تجویز کرتی ہے کہ بڑے بڑے اشتہارات دیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ سب اچھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کیا کچھ بھی اچھا نہیں۔ پنجاب کے عوام کو کرب و اضطراب میں مبتلا دیکھ کر ایم کیو ایم جیسی پارٹیاں آگے بڑھ کر اُنکے دکھوں کے مداوے کا اعلان کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھیں گی۔ ایم کیو ایم پنجاب کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکا ررہی ہے۔ویسے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک لسانی اور علاقائی جماعت قومی دھارے میں آنے کیلئے اپنی بیتابی کا اظہار کر رہی ہے مگر اس جماعت سے پنجاب کے عوام کو یہ پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے جو کچھ کراچی کو دیا ہے‘ کیا وہی کچھ پنجاب کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔گزشتہ بارہ پندرہ برس سے کراچی سندھ میں ایم کیو ایم کسی نہ کسی رنگ میں حکومت میں موجود ہے۔نہ صرف یہ حکومت میں ہے بلکہ ایک طاقتور پارٹنر کی حیثیت سے حکومت کا حصہ ہے۔اس دوران کراچی خاک و خون میں غلطا ں ہے۔ بھتہ خوری اور پرچی چندے کا کلچر عام ہے۔ٹارگٹ کلنگ یوں جاری ہے جیسے اس میں بندوق کے چھروں سے انسان نہیں مرتے بلکہ غبارے پھٹتے ہیں۔ کسی مہذب ملک میں یوں چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو نہیں مارا جاتا جیسے یہاں12مئی جیسے واقعات میں انسانوں کو پھڑکایا جاتا ہے اور وکیلوں تک کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ایم کیو ایم والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اُنکی رضا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو پھر کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے اسکی براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کی ذمہ داریاں اسی پر عائد نہیں ہوتی؟ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ اب پنجاب میں کوئی انقلاب کو آنے سے روک نہیں سکتا۔ اور جو اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرےگا وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔آجکل لفظ انقلاب سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور وہ آئے روز بیچارے ” انقلاب“ کو مشقِ ستم بتاتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے عوام الطاف بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں کیا وہ انقلاب فرانس جیسا کوئی انقلاب ہوگا یا انقلاب کراچی جیسا کوئی انقلاب ہوگا جسکی ہم اوپر ایک جھلک آپکے سامنے پیش کرچکے ہیں۔یا یہ کوئی فوجی انقلاب ہوگا جسکی آئے روز الطاف حسین نوید سناتے رہتے ہیں۔
الطاف حسین بنفسِ نفیس وطن عزیز واپس تشریف لے آئیں اور بچشم خود ملاحظہ فرمائیں کہ یارانِ وطن کس حال میں ہیں۔ پنجاب کے عوام پوچھتے ہیں کہ الطاف حسین کی پانی کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں اُنکا انقلابی موقف کیا ہوگا۔ ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔ بےروزگاری کے خاتمے کیلئے اُنکے پاس کیا انقلابی پالیسی اور پلان ہے۔انقلاب تو اچھے اچھے معاشی و سماجی منصوبوں پر عملدرآمد سے آتا ہے۔انقلاب محض ”لفظ انقلاب“ کی رٹ لگانے اور اسے اپنی گرم نوا ئی اور شعلہ بیانی کا حصہ بنانے سے تو نہیں آجاتا۔ پاکستان کے ایک بزرگ سیاست دان نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ نے ہر آدمی کے حصے کے بیوقوف پیدا کئے ہوتے ہیں۔کسی کے حصے کے کم کسی کے حصے کے زیادہ۔گزشتہ چالیس بیالس برس سے بہت سے لوگ روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر بےوقوف بنے ہوئے ہیں اور مسلسل بنے جارہے ہیں۔ اسی طرح اب سیاستدانوں کا خیال ہے کہ لوگ انقلاب کے نام پر بے وقوف بن جائینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوم بھی اتنی بے قصور نہیں۔وہ ہر بار مفاد پرست سیاست دانوں سے زخم پہ زخم کھاتی ہے مگر نئے انتخابات کے موقعے پر اسی ستمگر کی صندوقچی میں ووٹ کی پرچی ڈال آتی ہے۔قوم تمام تر دکھوں کے باوجود گہری نیند سورہی ہے۔نہ جانے وہ کب جاگے گی، نہ جانے وہ کب اٹھے گی اور کب اپنی ذمہ داریاں محسوس کرےگی؟
گزشتہ تین برس کے دوران پاکستانی معیشت کی شرح نمو صرف 2.6 فیصد رہی ہے جوکہ اب گھٹ کر 2فیصد سے بھی کم ہوجائے گی۔ جبکہ بھارت اور سری لنکا کی شرح نمو 8فیصد سے بھی زیادہ ہے۔تین سال پہلے آٹا 13روپے کلو تھا مگر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کی تین سالہ حکومت کے بعد آٹا 35 روپے کلو ہوگیا ہے جبکہ پیاز 15روپے سے 75 چینی 21 روپے سے 92،چاول48 روپے سے 110 دودھ 32 سے 60 روپے کلو ہوگیا ہے۔ پٹرول 54 سے بڑھ کر 80 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ بجلی بند، گیس بند، پٹرول بند، پانی بند ہے۔لوگ جائیں تو کدھر جائیں۔پنجاب میں 38 روز تک ڈاکٹروں کی ہڑتال رہی۔ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ نوکر شاہی بد ترین قسم کی انا پسندی کا شکار رہی۔ پنجاب حکومت سے کسی اور فردکو حقیقی کیا کوئی غیر حقیقی اختیار بھی حاصل نہیں‘ لہٰذا جب 38روز کے بعد وزیراعلیٰ کو خیال آیا تو انہوں نے ینگ ڈاکٹرز سے مذاکرات کئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُنکے معاملات ہمدردی اورتوجہ سے حل کرلئے جائینگے تو معاملہ سلجھ گیا۔ پرسوں لاہور کے جم خانہ کلب میں پنجاب حکومت کے ایک اہم ” ستون“ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے مذاکرات کی یہی تجویز ہڑتال کے تیسرے روز میاں شہباز شریف کو دی تھی مگر میاں صاحب نوکرشاہی کے سحر میں گرفتار تھے اس لئے انہوں نے ہماری بات پر توجہ نہ دی اس لئے معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پنجاب حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال 13اپریل سے غیر معینہ مدت کیلئے شروع ہوجائےگی۔ خادم پنجاب فوری طورپر اس طرف توجہ دیں۔ مگر وہ اس وقت ڈرون حملوں جیسے بڑے بڑے کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ بیچارے ذلیل و خوار ہوتے ہوئے عوام کے دکھ در د کو محسوس کرنے کا وقت ان کے پاس نہیں۔
پنجاب میں بد ترین قسم کی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور اب سی این جی سٹیشنز اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال نے پنجاب کی معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کا بلامبالغہ80فیصد حصہ بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔پنجاب میں جگہ جگہ شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ان تمام حالات کا نوکر شاہی ایک ہی علاج تجویز کرتی ہے کہ بڑے بڑے اشتہارات دیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ سب اچھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کیا کچھ بھی اچھا نہیں۔ پنجاب کے عوام کو کرب و اضطراب میں مبتلا دیکھ کر ایم کیو ایم جیسی پارٹیاں آگے بڑھ کر اُنکے دکھوں کے مداوے کا اعلان کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھیں گی۔ ایم کیو ایم پنجاب کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکا ررہی ہے۔ویسے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک لسانی اور علاقائی جماعت قومی دھارے میں آنے کیلئے اپنی بیتابی کا اظہار کر رہی ہے مگر اس جماعت سے پنجاب کے عوام کو یہ پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے جو کچھ کراچی کو دیا ہے‘ کیا وہی کچھ پنجاب کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔گزشتہ بارہ پندرہ برس سے کراچی سندھ میں ایم کیو ایم کسی نہ کسی رنگ میں حکومت میں موجود ہے۔نہ صرف یہ حکومت میں ہے بلکہ ایک طاقتور پارٹنر کی حیثیت سے حکومت کا حصہ ہے۔اس دوران کراچی خاک و خون میں غلطا ں ہے۔ بھتہ خوری اور پرچی چندے کا کلچر عام ہے۔ٹارگٹ کلنگ یوں جاری ہے جیسے اس میں بندوق کے چھروں سے انسان نہیں مرتے بلکہ غبارے پھٹتے ہیں۔ کسی مہذب ملک میں یوں چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو نہیں مارا جاتا جیسے یہاں12مئی جیسے واقعات میں انسانوں کو پھڑکایا جاتا ہے اور وکیلوں تک کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ایم کیو ایم والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اُنکی رضا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو پھر کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے اسکی براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کی ذمہ داریاں اسی پر عائد نہیں ہوتی؟ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ اب پنجاب میں کوئی انقلاب کو آنے سے روک نہیں سکتا۔ اور جو اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرےگا وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔آجکل لفظ انقلاب سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور وہ آئے روز بیچارے ” انقلاب“ کو مشقِ ستم بتاتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے عوام الطاف بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں کیا وہ انقلاب فرانس جیسا کوئی انقلاب ہوگا یا انقلاب کراچی جیسا کوئی انقلاب ہوگا جسکی ہم اوپر ایک جھلک آپکے سامنے پیش کرچکے ہیں۔یا یہ کوئی فوجی انقلاب ہوگا جسکی آئے روز الطاف حسین نوید سناتے رہتے ہیں۔
الطاف حسین بنفسِ نفیس وطن عزیز واپس تشریف لے آئیں اور بچشم خود ملاحظہ فرمائیں کہ یارانِ وطن کس حال میں ہیں۔ پنجاب کے عوام پوچھتے ہیں کہ الطاف حسین کی پانی کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں اُنکا انقلابی موقف کیا ہوگا۔ ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔ بےروزگاری کے خاتمے کیلئے اُنکے پاس کیا انقلابی پالیسی اور پلان ہے۔انقلاب تو اچھے اچھے معاشی و سماجی منصوبوں پر عملدرآمد سے آتا ہے۔انقلاب محض ”لفظ انقلاب“ کی رٹ لگانے اور اسے اپنی گرم نوا ئی اور شعلہ بیانی کا حصہ بنانے سے تو نہیں آجاتا۔ پاکستان کے ایک بزرگ سیاست دان نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ نے ہر آدمی کے حصے کے بیوقوف پیدا کئے ہوتے ہیں۔کسی کے حصے کے کم کسی کے حصے کے زیادہ۔گزشتہ چالیس بیالس برس سے بہت سے لوگ روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر بےوقوف بنے ہوئے ہیں اور مسلسل بنے جارہے ہیں۔ اسی طرح اب سیاستدانوں کا خیال ہے کہ لوگ انقلاب کے نام پر بے وقوف بن جائینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوم بھی اتنی بے قصور نہیں۔وہ ہر بار مفاد پرست سیاست دانوں سے زخم پہ زخم کھاتی ہے مگر نئے انتخابات کے موقعے پر اسی ستمگر کی صندوقچی میں ووٹ کی پرچی ڈال آتی ہے۔قوم تمام تر دکھوں کے باوجود گہری نیند سورہی ہے۔نہ جانے وہ کب جاگے گی، نہ جانے وہ کب اٹھے گی اور کب اپنی ذمہ داریاں محسوس کرےگی؟
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.