..امریکی دفتر خارجہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ. امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہےاس رپورٹ میں دنیا بھر کے ایک سو چورانوے ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کیونکہ سنہ دو ہزار دس کے بارے میں ہے اس لیے اس میں مشرق وسطی اور عرب ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانبھارتچین.امریکہ وزارتِ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ چوہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے ابتدائی کلمات میں کہا گیا ہے پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل میں ماورائے عدالت قتل، گمشدگیوں اور تشدد سرفہرست ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جیلوں کی ابتر صورتحال، طویل عرصے تک حراستیں، کمزور عدالتی نظام، استغاثہ اور جرائم کی تفتیش کرنے والوں کی ناقص تربیت اور شہرویوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازیاں ایسے مسائل ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔
کرپشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نچلی سطح پر حکومتی اداروں بشمول پولیس میں کرپشن عام ہے اور حکومت کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زنا، گھروں میں تشدد، خواتین کا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت سنجیدہ مسائل ہیں
مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیاں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ دو ہزار دس میں سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی گمشدگیاں جاری رہیں۔ ملک کے تمام حصوں سے لوگوں کے غائب ہوجانے کے واقعات سامنے آتے رہے۔ پولیس اور سکیورٹی اداروں نے لوگوں کو قید تنہائی میں رکھا اور ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ بہت سے سندھی اور بلوچی قوم پرست گمشدہ افراد میں شامل تھے
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کے بارے میں سماعت جاری رکھی اور مارچ میں حکومت نے اس سلسلے میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کمیش کے قیام کے باوجود اس مسئلے کے حل اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے بارے میں لوگوں میں کوئی امید پائی نہیں جاتی۔
رپورٹ میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسن تنظیم کے حوالے سے کہا گیا کہ اس سال سات سو پچاس افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے پینتس افراد کی لاشیں ملیں۔ اس تنیظم کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہزار ایک سے سن دو ہزار دس تک بلوچستان میں گیارہ ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.