مینڈک زلزلے سے پیشگی آگاہ ہوجاتے ہیں
قدرتی آفات میں عموماً سب سے مہلک زلزلے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکا جو اس ناگہانی خطرے کی پیشگی اطلاع دے سکے۔ لیکن اب سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ مینڈک کا حسیاتی نظام اسے زلزے کی آمد سے تین روز پہلے خبردار کردیتاہے۔نئی تحقیق سے مستقبل قریب میں زلزلے کی پیش گوئی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔
ممکن ہے کہ آپ کے لیے یہ خبر دلچسپی کا باعث ہوکہ مینڈکوں کو کئی گھنٹے اور بسااوقات دو تین روز پہلے ہی پتا چل جاتا ہے کہ زلزلہ آنے والا ہے اور وہ اپنے بچاؤ کے لیے محفوظ مقامات کی طرف بھاگنا شروع کردیتے ہیں۔
قدرت نے کئی جانوروں اور پرندوں کو ناگہانی خطرات سے پیشگی خبردار کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ مثلاً بارش سے قبل کئی پرندے محفوظ مقامات کی طرف اڑنے لگتے ہیں۔ آندھی سے کافی دیر پہلے جھینگروں کی آوازیں بند ہوجاتی ہیں، خطرے کی بوسونگھ کر گھوڑے اچانک مخصوص انداز میں ہنہنانے لگتے ہیں، اسی طرح جنگل کے جانور خطرے کو قبل از وقت بھانپ کر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن اپریل2009ء میں اٹلی کے علاقےلاکویلا میں تقریباً چھ درجے شدت کے زلزلے سے پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ مینڈکوں کو اس ناگہانی آفت کا تین روز پہلے ہی پتا چل گیا تھا۔
لاکویلا میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی اور بڑے زلزلے کے بعد ہفتوں تک چھوٹے زلزلوں کے ہزاروں جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔
زلزلے کو قدرتی آفات میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کیاجاتا ہے کیونکہ زلزلہ کسی کو سنبھلنے، سوچنے سمجھنے اور جان بچانے کا موقع نہیں دیتا اور لمحوں میں ہنستی بستی آبادیاں ملبوں کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔چند سال قبل پاکستان کے شمالی علاقے میں ایک تباہ کن زلزلے سے صرف چند منٹ میں درجنوں آبادیاں کھنڈر بن گئی تھیں اور 80 ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئےتھے۔
ہماری زمین بڑی بڑی چٹانی پرتوں پر قائم ہے، جن کے کونے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ زمین کے گہرائیوں میں درجہ حرارت کی تبدیلی ، اندورنی دباؤ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے یہ چٹانیں آہستہ آہستہ کھسکتی رہتی ہیں۔ جب ایک چٹان دوسری چٹان سے ہٹتی ہے تو زمین کی سطح پر کئی سو میل تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ اور پھر بعد میں ہلکے جھٹکے (آفٹر شاکس )اس وقت تک آتے رہتے ہیں جب تک کھسکنے والی چٹان نئی جگہ پر مضبوطی سے جم نہیں جاتی۔
آج کے جدید سائنسی دور میں ماہرین یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے کون کون سے شہر اور آبادیاں اس مقام پر واقع ہیں جہاں زمین کی تہہ میں چٹانیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ان کے کھسکنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ایسا کوئی نظام تیار نہیں کیا جاسکا جس سے پہ پتا چل سکے کہ چٹانوں کے کھسکنے کا عمل کب شروع ہوگا۔
لیکن دو سال پہلے اٹلی کے ایک تالاب سے زلزلہ آنے سے پہلےزیر تجربہ مینڈکوں کے اچانک فرار نے سائنس دانوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ ایک ماہر حیاتیات مس گرانٹ ، اٹلی کے شہر لاکویلا میں مینڈکوں پر تحقیق کررہی تھیں۔ تالاب میں 90 کے لگ بھگ مینڈک رکھے گئے تھے لیکن جب زلزلے سے تین روز پہلے 80 سے زیادہ مینڈک گھبراہٹ کے عالم میں تالاب چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے ناسا کے ماہرین سے رابطہ کیا۔
سائنسی جریدے زولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے سے تین روز قبل تالاب میں زیر تجربہ مینڈکوں کا فرار محض کوئی اتفاق نہیں تھا، کیونکہ انہیں زلزلے کے کئی روز بعدآفٹرشاکس کی شدت کم ہونے پر دوبارہ تالاب میں رہنے پر مجبور کیا جاسکا تھا۔
ناسا کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ زیر زمین چٹانوں کے کھسکنے سے پہلے یقیناً ایسی کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں ، جسے مینڈکوں کا حسیاتی نظام محسوس کرلیتا ہے اور انہیں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔
تجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ چٹانیں اچانک اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں بلکہ شدید دباؤ کے تحت یہ عمل کئی روز پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران چٹانیں برقائے ہوئے ذرات خارج کرنا شروع کردیتی ہیں جو زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتے ہیں۔ ناسا کے سائنس دان فرائیڈ من کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ پانی میں یا اس کےقریب رہنے والے کچھ جانداروں پر،مثلاً مینڈک وغیرہ، زمین کے اندر سے خارج ہونے والی برقی لہروں کا شدید اثرہوتا ہو جس سے بچنے کے لیے وہ وہاں سے چلے جاتے ہوں۔
ناسا ہی کے ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فرینڈ کہتے ہیں کہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے نکلنے والے والے برقی ذرات زمین کی سطح پر آکر ہوا میں آئن پیدا کردیتے ہیں۔
آئن مثبت چارج رکھنے والے برقی ذرات ہوتے ہیں۔ فضا میں ان کی زیادتی کئی لوگوں میں سردرداور متلی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خون میں دباؤ بڑھانے والے ہارمونز کی سطح بھی بلند ہوجاتی ہے۔ لیکن چونکہ فضا میں برقی ذرات کی موجودگی کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں اس لیے سردرد اورمتلی کو زلزلے کی پیش گوئی نہیں سمجھا جاسکتا۔
جب کہ ماہرین کا کہناہے کہ کسی ایسی جگہ سے جو فالٹ زون یعنی زلزلوں کے امکانی علاقے میں واقع ہو، پانی سے بڑے پیمانے پر مینڈکوں کے فرار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ کئی دوسرے عوامل بھی زلزلے کے امکان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً اکثر پالتو جانورزلزلے سے کئی گھنٹے قبل گھبراہٹ اور پریشانی میں عجیب و غریب حرکات کرنے لگتے ہیں۔ فالٹ زون میں زلزلے سے پہلے فضا میں تابکاری کی سطح بڑھ جاتی ہے اور کرہ ہوائی کے آئن زون میں برقی ذرات کی مقدار تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آسمان پر بادل ہوں تووہ اس سے کہیں مختلف دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ عموماً نظر آتے ہیں۔
مینڈکوں نے سائنس دانوں کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیے ہیں اوریہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مستقبل قریب میں زلزلے سے کئی گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کی جاسکے گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زلزلہ پیما مراکز میں مینڈک پالے جائیں گے بلکہ ایسا نظام تیار کیا جاسکتاہے جو زیر زمین چٹانوں سے خارج ہونے والے برقی ذرات کی مؤثر پیمائش کرکے خطرے سے پیشگی خبردار کرسکے گا۔
قدرت نے کئی جانوروں اور پرندوں کو ناگہانی خطرات سے پیشگی خبردار کرنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ مثلاً بارش سے قبل کئی پرندے محفوظ مقامات کی طرف اڑنے لگتے ہیں۔ آندھی سے کافی دیر پہلے جھینگروں کی آوازیں بند ہوجاتی ہیں، خطرے کی بوسونگھ کر گھوڑے اچانک مخصوص انداز میں ہنہنانے لگتے ہیں، اسی طرح جنگل کے جانور خطرے کو قبل از وقت بھانپ کر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
لیکن اپریل2009ء میں اٹلی کے علاقےلاکویلا میں تقریباً چھ درجے شدت کے زلزلے سے پہلے کسی کو یہ علم نہیں تھا کہ مینڈکوں کو اس ناگہانی آفت کا تین روز پہلے ہی پتا چل گیا تھا۔
لاکویلا میں زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی تھی اور بڑے زلزلے کے بعد ہفتوں تک چھوٹے زلزلوں کے ہزاروں جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔
زلزلے کو قدرتی آفات میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کیاجاتا ہے کیونکہ زلزلہ کسی کو سنبھلنے، سوچنے سمجھنے اور جان بچانے کا موقع نہیں دیتا اور لمحوں میں ہنستی بستی آبادیاں ملبوں کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔چند سال قبل پاکستان کے شمالی علاقے میں ایک تباہ کن زلزلے سے صرف چند منٹ میں درجنوں آبادیاں کھنڈر بن گئی تھیں اور 80 ہزار سے زیادہ افراد موت کے منہ میں چلے گئےتھے۔
ہماری زمین بڑی بڑی چٹانی پرتوں پر قائم ہے، جن کے کونے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہیں۔ زمین کے گہرائیوں میں درجہ حرارت کی تبدیلی ، اندورنی دباؤ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے یہ چٹانیں آہستہ آہستہ کھسکتی رہتی ہیں۔ جب ایک چٹان دوسری چٹان سے ہٹتی ہے تو زمین کی سطح پر کئی سو میل تک زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں۔ اور پھر بعد میں ہلکے جھٹکے (آفٹر شاکس )اس وقت تک آتے رہتے ہیں جب تک کھسکنے والی چٹان نئی جگہ پر مضبوطی سے جم نہیں جاتی۔
آج کے جدید سائنسی دور میں ماہرین یہ جانتے ہیں کہ دنیا کے کون کون سے شہر اور آبادیاں اس مقام پر واقع ہیں جہاں زمین کی تہہ میں چٹانیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں اور ان کے کھسکنے کے امکانات موجود ہیں، لیکن ابھی تک ایسا کوئی نظام تیار نہیں کیا جاسکا جس سے پہ پتا چل سکے کہ چٹانوں کے کھسکنے کا عمل کب شروع ہوگا۔
لیکن دو سال پہلے اٹلی کے ایک تالاب سے زلزلہ آنے سے پہلےزیر تجربہ مینڈکوں کے اچانک فرار نے سائنس دانوں کو ایک نئی راہ دکھائی۔
ہوا یہ کہ ایک ماہر حیاتیات مس گرانٹ ، اٹلی کے شہر لاکویلا میں مینڈکوں پر تحقیق کررہی تھیں۔ تالاب میں 90 کے لگ بھگ مینڈک رکھے گئے تھے لیکن جب زلزلے سے تین روز پہلے 80 سے زیادہ مینڈک گھبراہٹ کے عالم میں تالاب چھوڑ کر بھاگ گئے تو انہوں نے ناسا کے ماہرین سے رابطہ کیا۔
سائنسی جریدے زولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زلزلے سے تین روز قبل تالاب میں زیر تجربہ مینڈکوں کا فرار محض کوئی اتفاق نہیں تھا، کیونکہ انہیں زلزلے کے کئی روز بعدآفٹرشاکس کی شدت کم ہونے پر دوبارہ تالاب میں رہنے پر مجبور کیا جاسکا تھا۔
ناسا کے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ زیر زمین چٹانوں کے کھسکنے سے پہلے یقیناً ایسی کیمیائی تبدیلیاں آتی ہیں ، جسے مینڈکوں کا حسیاتی نظام محسوس کرلیتا ہے اور انہیں اپنی جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کردیتا ہے۔
تجربات سے انہیں معلوم ہوا کہ چٹانیں اچانک اپنی جگہ نہیں چھوڑتیں بلکہ شدید دباؤ کے تحت یہ عمل کئی روز پہلے شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران چٹانیں برقائے ہوئے ذرات خارج کرنا شروع کردیتی ہیں جو زمین کی سطح پر موجود پانی کو متاثر کرتے ہیں۔ ناسا کے سائنس دان فرائیڈ من کا کہناہے کہ بہت ممکن ہے کہ پانی میں یا اس کےقریب رہنے والے کچھ جانداروں پر،مثلاً مینڈک وغیرہ، زمین کے اندر سے خارج ہونے والی برقی لہروں کا شدید اثرہوتا ہو جس سے بچنے کے لیے وہ وہاں سے چلے جاتے ہوں۔
ناسا ہی کے ایک اور سائنس دان ڈاکٹر فرینڈ کہتے ہیں کہ زلزلے سے قبل چٹانوں سے نکلنے والے والے برقی ذرات زمین کی سطح پر آکر ہوا میں آئن پیدا کردیتے ہیں۔
آئن مثبت چارج رکھنے والے برقی ذرات ہوتے ہیں۔ فضا میں ان کی زیادتی کئی لوگوں میں سردرداور متلی کی کیفیت پیدا کردیتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خون میں دباؤ بڑھانے والے ہارمونز کی سطح بھی بلند ہوجاتی ہے۔ لیکن چونکہ فضا میں برقی ذرات کی موجودگی کی اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں اس لیے سردرد اورمتلی کو زلزلے کی پیش گوئی نہیں سمجھا جاسکتا۔
جب کہ ماہرین کا کہناہے کہ کسی ایسی جگہ سے جو فالٹ زون یعنی زلزلوں کے امکانی علاقے میں واقع ہو، پانی سے بڑے پیمانے پر مینڈکوں کے فرار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ کئی دوسرے عوامل بھی زلزلے کے امکان کی نشان دہی کرتے ہیں۔ مثلاً اکثر پالتو جانورزلزلے سے کئی گھنٹے قبل گھبراہٹ اور پریشانی میں عجیب و غریب حرکات کرنے لگتے ہیں۔ فالٹ زون میں زلزلے سے پہلے فضا میں تابکاری کی سطح بڑھ جاتی ہے اور کرہ ہوائی کے آئن زون میں برقی ذرات کی مقدار تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر آسمان پر بادل ہوں تووہ اس سے کہیں مختلف دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ عموماً نظر آتے ہیں۔
مینڈکوں نے سائنس دانوں کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول دیے ہیں اوریہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ مستقبل قریب میں زلزلے سے کئی گھنٹے قبل اس کی پیش گوئی کی جاسکے گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ زلزلہ پیما مراکز میں مینڈک پالے جائیں گے بلکہ ایسا نظام تیار کیا جاسکتاہے جو زیر زمین چٹانوں سے خارج ہونے والے برقی ذرات کی مؤثر پیمائش کرکے خطرے سے پیشگی خبردار کرسکے گا۔
No comments:
Post a Comment
Note: Only a member of this blog may post a comment.