20110426
20110421
20110418
امریکہ میں کھدائی کے دوران پتھروں کے نئے اوزار ملنے کے بعد وہاں پہلی بار انسانوں کے آباد ہونے کے بارے میں قائم نظریہ غلط ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرینِ آثار قدیمہ نے پتھروں کے ہزاروں ایسے اوزار برآمد کیے ہیں جو ان اشیاء سے پرانے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ امریکہ میں آباد ہونے والے پہلے انسان اپنے پاس رکھتے تھے۔ امریکی ریاست ٹیکساس سے ملنے والے ان نئے اوزاروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ’کلووس تہذیب‘ امریکہ کے اصل باسیوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔
’سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ساڑھے پندرہ ہزار برس پرانے اوزار کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ امریکہ میں پہلے ہی حالیہ دہائیوں میں کھدائی کے دوران ایسی اشیاء ملی ہیں جو ’کلووس‘ تہذیب کے لوگوں کے امریکہ کے پہلے باسی ہونے کے نظریے کو مشکوک بنا رہی تھیں۔
’سائنس‘ میں شائع ہونے والے مضمون کے مصنفین کے مطابق ٹیکساس سے ملنے والے اوزاروں کی عمر معلوم ہونے کے بعد کلووس تہذیب کے بارے میں نظریہ بالکل ختم ہو گیا ہے۔
گزشتہ اسی برس سے امریکہ کے بارے میں خیال تھا کہ یہاں سائبیریا سے امریکی ریاست الاسکا کے راستے پہنچنے والے لوگ سب سے پہلے آ کر آباد ہوئے تھے۔ شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ساڑھے تیرہ ہزار برس پہلے امریکہ پہنچے تھے۔ ان لوگوں کے پاس کارآمد تیر اور کمان تھے جن سے یہ اس وقت اس بر اعظم پر پائے جانے والے بھاری بھرکم جانوروں کا شکار کرتے تھے۔
لیکن اب ٹیکساس سے جو پندرہ ہزار پانچ سو اٹھائیس اوزار ملے ہیں ان کی عمر ساڑھے پندرہ ہزار برس ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اوزاروں کی عمر معتبر طریقے سے معلوم کی گئی ہے جسے او ایس ایل کہتے ہیں۔
تاہم کچھ ماہرین اس تحقیق میں غلطی کے امکان کو رد نہیں کرتے۔
20110415
قوم کب جاگے گی؟
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ ـ
میرے پاس ہمیشہ اُمیدوں، مسکراہٹوں اور تمناﺅں کا وافر خزانہ موجود ہوتا ہے جسے میں اکثر اپنے قارئین و ناظرین کی نذر کرتا رہتا ہوں۔ حالات کتنے بھی دگرگوں کیوں نہ ہوں، رات کی تاریکی کتنی گہری اور گھمبیر کیوں نہ ہو میں نویدِ صبح لاتا ہوں اور رشتہ ¿ امید ٹوٹنے نہیں دیتا مگر اب کچھ دنوں سے سیاست، معیشت اور معاشرت کا سیاستدانوں نے جو حال بلکہ جو حشر کردیا ہے اس سے خود میں گہری تشویش میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان کی معیشت کو 53 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔اس دوران امریکہ نے پاکستان کونقد صرف 11ارب ڈالر دئیے ہیں۔اپنے اڑوس پڑوس کے ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ذرخیز زمین اور بے بہا قدرتی وسائل رکھنے والا ملک پاکستان بد ترین قسم کی مہنگائی سے دوچار ہوچکا ہے۔
گزشتہ تین برس کے دوران پاکستانی معیشت کی شرح نمو صرف 2.6 فیصد رہی ہے جوکہ اب گھٹ کر 2فیصد سے بھی کم ہوجائے گی۔ جبکہ بھارت اور سری لنکا کی شرح نمو 8فیصد سے بھی زیادہ ہے۔تین سال پہلے آٹا 13روپے کلو تھا مگر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کی تین سالہ حکومت کے بعد آٹا 35 روپے کلو ہوگیا ہے جبکہ پیاز 15روپے سے 75 چینی 21 روپے سے 92،چاول48 روپے سے 110 دودھ 32 سے 60 روپے کلو ہوگیا ہے۔ پٹرول 54 سے بڑھ کر 80 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ بجلی بند، گیس بند، پٹرول بند، پانی بند ہے۔لوگ جائیں تو کدھر جائیں۔پنجاب میں 38 روز تک ڈاکٹروں کی ہڑتال رہی۔ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ نوکر شاہی بد ترین قسم کی انا پسندی کا شکار رہی۔ پنجاب حکومت سے کسی اور فردکو حقیقی کیا کوئی غیر حقیقی اختیار بھی حاصل نہیں‘ لہٰذا جب 38روز کے بعد وزیراعلیٰ کو خیال آیا تو انہوں نے ینگ ڈاکٹرز سے مذاکرات کئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُنکے معاملات ہمدردی اورتوجہ سے حل کرلئے جائینگے تو معاملہ سلجھ گیا۔ پرسوں لاہور کے جم خانہ کلب میں پنجاب حکومت کے ایک اہم ” ستون“ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے مذاکرات کی یہی تجویز ہڑتال کے تیسرے روز میاں شہباز شریف کو دی تھی مگر میاں صاحب نوکرشاہی کے سحر میں گرفتار تھے اس لئے انہوں نے ہماری بات پر توجہ نہ دی اس لئے معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پنجاب حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال 13اپریل سے غیر معینہ مدت کیلئے شروع ہوجائےگی۔ خادم پنجاب فوری طورپر اس طرف توجہ دیں۔ مگر وہ اس وقت ڈرون حملوں جیسے بڑے بڑے کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ بیچارے ذلیل و خوار ہوتے ہوئے عوام کے دکھ در د کو محسوس کرنے کا وقت ان کے پاس نہیں۔
پنجاب میں بد ترین قسم کی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور اب سی این جی سٹیشنز اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال نے پنجاب کی معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کا بلامبالغہ80فیصد حصہ بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔پنجاب میں جگہ جگہ شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ان تمام حالات کا نوکر شاہی ایک ہی علاج تجویز کرتی ہے کہ بڑے بڑے اشتہارات دیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ سب اچھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کیا کچھ بھی اچھا نہیں۔ پنجاب کے عوام کو کرب و اضطراب میں مبتلا دیکھ کر ایم کیو ایم جیسی پارٹیاں آگے بڑھ کر اُنکے دکھوں کے مداوے کا اعلان کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھیں گی۔ ایم کیو ایم پنجاب کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکا ررہی ہے۔ویسے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک لسانی اور علاقائی جماعت قومی دھارے میں آنے کیلئے اپنی بیتابی کا اظہار کر رہی ہے مگر اس جماعت سے پنجاب کے عوام کو یہ پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے جو کچھ کراچی کو دیا ہے‘ کیا وہی کچھ پنجاب کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔گزشتہ بارہ پندرہ برس سے کراچی سندھ میں ایم کیو ایم کسی نہ کسی رنگ میں حکومت میں موجود ہے۔نہ صرف یہ حکومت میں ہے بلکہ ایک طاقتور پارٹنر کی حیثیت سے حکومت کا حصہ ہے۔اس دوران کراچی خاک و خون میں غلطا ں ہے۔ بھتہ خوری اور پرچی چندے کا کلچر عام ہے۔ٹارگٹ کلنگ یوں جاری ہے جیسے اس میں بندوق کے چھروں سے انسان نہیں مرتے بلکہ غبارے پھٹتے ہیں۔ کسی مہذب ملک میں یوں چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو نہیں مارا جاتا جیسے یہاں12مئی جیسے واقعات میں انسانوں کو پھڑکایا جاتا ہے اور وکیلوں تک کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ایم کیو ایم والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اُنکی رضا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو پھر کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے اسکی براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کی ذمہ داریاں اسی پر عائد نہیں ہوتی؟ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ اب پنجاب میں کوئی انقلاب کو آنے سے روک نہیں سکتا۔ اور جو اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرےگا وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔آجکل لفظ انقلاب سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور وہ آئے روز بیچارے ” انقلاب“ کو مشقِ ستم بتاتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے عوام الطاف بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں کیا وہ انقلاب فرانس جیسا کوئی انقلاب ہوگا یا انقلاب کراچی جیسا کوئی انقلاب ہوگا جسکی ہم اوپر ایک جھلک آپکے سامنے پیش کرچکے ہیں۔یا یہ کوئی فوجی انقلاب ہوگا جسکی آئے روز الطاف حسین نوید سناتے رہتے ہیں۔
الطاف حسین بنفسِ نفیس وطن عزیز واپس تشریف لے آئیں اور بچشم خود ملاحظہ فرمائیں کہ یارانِ وطن کس حال میں ہیں۔ پنجاب کے عوام پوچھتے ہیں کہ الطاف حسین کی پانی کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں اُنکا انقلابی موقف کیا ہوگا۔ ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔ بےروزگاری کے خاتمے کیلئے اُنکے پاس کیا انقلابی پالیسی اور پلان ہے۔انقلاب تو اچھے اچھے معاشی و سماجی منصوبوں پر عملدرآمد سے آتا ہے۔انقلاب محض ”لفظ انقلاب“ کی رٹ لگانے اور اسے اپنی گرم نوا ئی اور شعلہ بیانی کا حصہ بنانے سے تو نہیں آجاتا۔ پاکستان کے ایک بزرگ سیاست دان نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ نے ہر آدمی کے حصے کے بیوقوف پیدا کئے ہوتے ہیں۔کسی کے حصے کے کم کسی کے حصے کے زیادہ۔گزشتہ چالیس بیالس برس سے بہت سے لوگ روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر بےوقوف بنے ہوئے ہیں اور مسلسل بنے جارہے ہیں۔ اسی طرح اب سیاستدانوں کا خیال ہے کہ لوگ انقلاب کے نام پر بے وقوف بن جائینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوم بھی اتنی بے قصور نہیں۔وہ ہر بار مفاد پرست سیاست دانوں سے زخم پہ زخم کھاتی ہے مگر نئے انتخابات کے موقعے پر اسی ستمگر کی صندوقچی میں ووٹ کی پرچی ڈال آتی ہے۔قوم تمام تر دکھوں کے باوجود گہری نیند سورہی ہے۔نہ جانے وہ کب جاگے گی، نہ جانے وہ کب اٹھے گی اور کب اپنی ذمہ داریاں محسوس کرےگی؟
گزشتہ تین برس کے دوران پاکستانی معیشت کی شرح نمو صرف 2.6 فیصد رہی ہے جوکہ اب گھٹ کر 2فیصد سے بھی کم ہوجائے گی۔ جبکہ بھارت اور سری لنکا کی شرح نمو 8فیصد سے بھی زیادہ ہے۔تین سال پہلے آٹا 13روپے کلو تھا مگر روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پیپلز پارٹی کی تین سالہ حکومت کے بعد آٹا 35 روپے کلو ہوگیا ہے جبکہ پیاز 15روپے سے 75 چینی 21 روپے سے 92،چاول48 روپے سے 110 دودھ 32 سے 60 روپے کلو ہوگیا ہے۔ پٹرول 54 سے بڑھ کر 80 روپے فی لیٹر ہوچکا ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ بجلی بند، گیس بند، پٹرول بند، پانی بند ہے۔لوگ جائیں تو کدھر جائیں۔پنجاب میں 38 روز تک ڈاکٹروں کی ہڑتال رہی۔ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ نوکر شاہی بد ترین قسم کی انا پسندی کا شکار رہی۔ پنجاب حکومت سے کسی اور فردکو حقیقی کیا کوئی غیر حقیقی اختیار بھی حاصل نہیں‘ لہٰذا جب 38روز کے بعد وزیراعلیٰ کو خیال آیا تو انہوں نے ینگ ڈاکٹرز سے مذاکرات کئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ اُنکے معاملات ہمدردی اورتوجہ سے حل کرلئے جائینگے تو معاملہ سلجھ گیا۔ پرسوں لاہور کے جم خانہ کلب میں پنجاب حکومت کے ایک اہم ” ستون“ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے مذاکرات کی یہی تجویز ہڑتال کے تیسرے روز میاں شہباز شریف کو دی تھی مگر میاں صاحب نوکرشاہی کے سحر میں گرفتار تھے اس لئے انہوں نے ہماری بات پر توجہ نہ دی اس لئے معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ ہم نے اپنے گزشتہ کالم میں پنجاب حکومت کو خبر دار کیا تھا کہ سی این جی سٹیشنز کی ہڑتال 13اپریل سے غیر معینہ مدت کیلئے شروع ہوجائےگی۔ خادم پنجاب فوری طورپر اس طرف توجہ دیں۔ مگر وہ اس وقت ڈرون حملوں جیسے بڑے بڑے کاموں کی طرف متوجہ ہیں۔ بیچارے ذلیل و خوار ہوتے ہوئے عوام کے دکھ در د کو محسوس کرنے کا وقت ان کے پاس نہیں۔
پنجاب میں بد ترین قسم کی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور اب سی این جی سٹیشنز اور پٹرول پمپوں کی ہڑتال نے پنجاب کی معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔فیصل آباد کی ٹیکسٹائل ملوں کا بلامبالغہ80فیصد حصہ بیرون ملک منتقل ہو چکا ہے۔پنجاب میں جگہ جگہ شہر شہر اور گاﺅں گاﺅں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ان تمام حالات کا نوکر شاہی ایک ہی علاج تجویز کرتی ہے کہ بڑے بڑے اشتہارات دیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ سب اچھا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سب کیا کچھ بھی اچھا نہیں۔ پنجاب کے عوام کو کرب و اضطراب میں مبتلا دیکھ کر ایم کیو ایم جیسی پارٹیاں آگے بڑھ کر اُنکے دکھوں کے مداوے کا اعلان کر رہی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ ہم آپ کے زخموں پر مرہم رکھیں گی۔ ایم کیو ایم پنجاب کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو للکا ررہی ہے۔ویسے تو یہ خوش آئند بات ہے کہ ایک لسانی اور علاقائی جماعت قومی دھارے میں آنے کیلئے اپنی بیتابی کا اظہار کر رہی ہے مگر اس جماعت سے پنجاب کے عوام کو یہ پوچھنا چاہئے کہ انہوں نے جو کچھ کراچی کو دیا ہے‘ کیا وہی کچھ پنجاب کو دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔گزشتہ بارہ پندرہ برس سے کراچی سندھ میں ایم کیو ایم کسی نہ کسی رنگ میں حکومت میں موجود ہے۔نہ صرف یہ حکومت میں ہے بلکہ ایک طاقتور پارٹنر کی حیثیت سے حکومت کا حصہ ہے۔اس دوران کراچی خاک و خون میں غلطا ں ہے۔ بھتہ خوری اور پرچی چندے کا کلچر عام ہے۔ٹارگٹ کلنگ یوں جاری ہے جیسے اس میں بندوق کے چھروں سے انسان نہیں مرتے بلکہ غبارے پھٹتے ہیں۔ کسی مہذب ملک میں یوں چڑیوں اور چیونٹیوں تک کو نہیں مارا جاتا جیسے یہاں12مئی جیسے واقعات میں انسانوں کو پھڑکایا جاتا ہے اور وکیلوں تک کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ایم کیو ایم والوں کا کہنا ہے کہ کراچی میں اُنکی رضا کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو پھر کراچی میں جو کچھ ہوتا ہے اسکی براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح کی ذمہ داریاں اسی پر عائد نہیں ہوتی؟ الطاف بھائی فرماتے ہیں کہ اب پنجاب میں کوئی انقلاب کو آنے سے روک نہیں سکتا۔ اور جو اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرےگا وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائےگا۔آجکل لفظ انقلاب سیاستدانوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور وہ آئے روز بیچارے ” انقلاب“ کو مشقِ ستم بتاتے رہتے ہیں۔ پنجاب کے عوام الطاف بھائی سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس انقلاب کی بات کر رہے ہیں کیا وہ انقلاب فرانس جیسا کوئی انقلاب ہوگا یا انقلاب کراچی جیسا کوئی انقلاب ہوگا جسکی ہم اوپر ایک جھلک آپکے سامنے پیش کرچکے ہیں۔یا یہ کوئی فوجی انقلاب ہوگا جسکی آئے روز الطاف حسین نوید سناتے رہتے ہیں۔
الطاف حسین بنفسِ نفیس وطن عزیز واپس تشریف لے آئیں اور بچشم خود ملاحظہ فرمائیں کہ یارانِ وطن کس حال میں ہیں۔ پنجاب کے عوام پوچھتے ہیں کہ الطاف حسین کی پانی کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں اُنکا انقلابی موقف کیا ہوگا۔ ڈیموں کی تعمیر کے بارے میں وہ کیا کہتے ہیں۔ بےروزگاری کے خاتمے کیلئے اُنکے پاس کیا انقلابی پالیسی اور پلان ہے۔انقلاب تو اچھے اچھے معاشی و سماجی منصوبوں پر عملدرآمد سے آتا ہے۔انقلاب محض ”لفظ انقلاب“ کی رٹ لگانے اور اسے اپنی گرم نوا ئی اور شعلہ بیانی کا حصہ بنانے سے تو نہیں آجاتا۔ پاکستان کے ایک بزرگ سیاست دان نے ایک بار کہا تھا کہ اللہ نے ہر آدمی کے حصے کے بیوقوف پیدا کئے ہوتے ہیں۔کسی کے حصے کے کم کسی کے حصے کے زیادہ۔گزشتہ چالیس بیالس برس سے بہت سے لوگ روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر بےوقوف بنے ہوئے ہیں اور مسلسل بنے جارہے ہیں۔ اسی طرح اب سیاستدانوں کا خیال ہے کہ لوگ انقلاب کے نام پر بے وقوف بن جائینگے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قوم بھی اتنی بے قصور نہیں۔وہ ہر بار مفاد پرست سیاست دانوں سے زخم پہ زخم کھاتی ہے مگر نئے انتخابات کے موقعے پر اسی ستمگر کی صندوقچی میں ووٹ کی پرچی ڈال آتی ہے۔قوم تمام تر دکھوں کے باوجود گہری نیند سورہی ہے۔نہ جانے وہ کب جاگے گی، نہ جانے وہ کب اٹھے گی اور کب اپنی ذمہ داریاں محسوس کرےگی؟
20110414
بھارت پاک کرکٹ روابط بحال؟
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت نے پاکستان کے ساتھ باہمی کرکٹ روابط بحال کرنے کی منظوری دیدی ہے لیکن بی سی سی آئی کے ایک اعلیٰ اہلکار کا کہنا ہے کہ بورڈ کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
بھارتی کرکٹ بورڈ کے جنرل سکریٹری راجیو شکلا کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ سیریز کی بحالی کا کوئی فوری امکان نہیں ہے کیونکہ بھارتی کرکٹ ٹیم آئندہ ماہ فروری تک مصروف ہے۔پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملے کے بعد سے آئی سی سی نے وہاں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لیے ابھی ہری جھنڈی نہیں دکھائی ہے۔
اس سے پہلے بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینلوں نے نامعلوم ذرائع کی حوالے سے کہا تھا کہ حکومت نے ممبئی پر حملوں کے بعد سے منقطع کرکٹ روابط بحال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
یہ خبر بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کےگزشتہ روز کے اس بیان کے بعد سرخیوں میں آئی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ کرکٹ اور بات چيت جاری رہیگي۔
امن مذاکرات اور کرکٹ میچیز جاری رہیں گے اور ساتھ ہی ممبئی پر حملہ کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ہماری کوششیں بھی جاری رہیں گي۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے موہالی میں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب سے بات چیت کے دوران تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کی تجویز پیش کی تھی۔
میڈیا میں اس خبر کو بہت نمایاں طور پرشائع کیا گیا ہے۔ خبروں میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’یہ کھیل دونوں ملکوں میں بہت مقبول ہے۔ میرے خیال میں دونوں ٹیموں کو آپس میں کھیلتے ہوئے دیکھنے میں بہت لوگوں کی دلچسپی ہوگی‘۔
وزارت داخلہ کے ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگر ٹیم پاکستان جاتی ہے تو اس کی سکیورٹی کے لیے خصوصی انتظامات کی ضرورت ہوگی لیکن ’اس میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہیے‘۔
فی الحال بھارتی کھلاڑی انڈین پریمئر لیگ میں مصروف ہیں جس کے فوراً بعد وہ ویسٹ انڈیز اور پھر انگلینڈ کا دورہ کریں گے۔ اس کے بعد انگلینڈ کی ٹیم بھارت آئے گی اور نومبر میں ویسٹ انڈیز کا دورہ طے ہے۔
جنوری دو ہزار بارہ میں بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے لمبے دورے پر روانہ ہوگی اور اس کے بعد پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے لیکن اس کی ابھی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
لیکن اس مصروف نظام الاوقات کے باوجود ایک اخبار نے دعوی کیا ہے کہ بی سی سی آئی اور پی سی بی کو آئندہ برس کے لیے بھارتی ٹیم کے دورے کا شیڈول تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ بھارت نے آخری مرتبہ سن دو ہزار پانچ چھ میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
لاہور میں تین مارچ دو ہزار نو کو سری لنکا کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی تھی جس کی وجہ سے ملک میں بین الاقوامی کرکٹ پوری طرح سے بند ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو عالمی کپ کی مشترکہ میزبانی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔
20110413
لاہور دیکھنا ہو تو۔۔
تنہائی پسند مصور شاہد جلال نے لاہور کے دو باغوں کے حسن کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ انھیں دوام مل گیا ہے۔
یہ باغ لاہور کے لارنس گارڈنز اور لینئر پارک ہیں۔ ان میں سے لارنس گارڈنز تو ایک معروف باغ ہے جب کہ لینئر پارک ماڈل ٹاون نامی علاقے میں واقع ہے اور قدرے کم معروف ہے۔اگر شاہد جلال کی پینٹنگز کو دیکھ کر آپ کے دل میں ان باغوں کو دیکھنے اور اس حسن کو محسوس کرنے کی خواہش پیدا ہو، جس کا قوی امکان ہے تو یہ نہ بھولیے گا کہ اس کے لیے آپ کو آنکھیں شاہد جلال سے مانگنی ہوں گی۔
کیونکہ ان کی پینٹنگز میں باریکیوں اور ٹیکسچر سے جو لگاؤ، رنگوں میں گہرائی اور دھیماپن ہے وہی خود شاہد جلال کی شخصیت میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ حسن، رنگ، روشنی اور سائے جو انھیں دکھائی دیے اور جو وہ ہمیں دکھاتے ہیں ان کا بڑا حصہ خود شاہد جلال ہی کا باطن ہو۔
اور یوں بھی کہا جاتا ہے کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے۔
کراچی کی آرٹ گیلری آرٹ سین میں جاری نمائش میں شاہد جلال کی بتیس پینٹنگز لگائی گئی ہیں اور ان کے زیادہ تر کینوس مستطیل نما اور کم و بیش 3042x اور 36x30سائز کے ہیں۔ وہ محتاط اور چھوٹے سٹروک لگاتے ہیں اور یہی ان کے انداز اور اسلوب کی اہمیت ہے۔
ان کے ایک نقاد نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ان کی ینٹنگز میں آسمان بہت کم دکھائی دیتا ہے اور حقیقت تو یہ کہ جو دکھائی دیتا ہے وہ بھی کونوں کھدروں میں چھپا ہوا، اور توجہ سے محروم، ملگجا سا نیلگوں سلیٹی، پس منظر کے عقب سے جھانکتا، ڈرا سہما جیسے کوئی بچہ، جو سامنے آنے سے گھبرا رہا ہو۔
غالباً شاہد جلال کے لیے کینوس ایک کھڑکی یا آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ آئینہ یا کھڑکی کسی بالائی منزل میں نہیں بلکہ اس طرح ہیں کہ انھیں منظر کو دیکھنے کے لیے سر اٹھانا یا جھکانا نہیں پڑتا۔ یہ زاویہ مصور کو اپنے موضوع سے قربت اور شمولیت کا تعلق دیتا ہے اور یہی تعلق شاہد جلال کی پینٹنگز میں محسوس بھی ہوتا ہے۔
شاہد جلال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم گو اور کم آمیز ہیں لیکن انھیں یہ بات ضرور بتانی چاہیے کہ وہ اپنی پینٹنگ کا کتنا حصہ سٹوڈیو میں بناتے ہیں۔
اس نمائش میں جن پینٹگز کی نمائش کی جا رہی ہے وہ انھوں نے تین سال کے عرصے میں بنائی ہیں۔
بالعموم وہ سال بھر میں کوئی بیس کے قریب پینٹنگز بناتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایک پینٹنگ پر اوسطاً پندرہ سے بیس دن لگاتے ہیں اور جس قدر اور جیسی روشنی اور سایوں سے ان کی پینٹنگ کے رنگ اور باریکیوں کی تفصیلات اجاگر ہوتی ہیں وہ روشنی اور سائے روزانہ ایک سے نہیں رہتے۔
اس نمائش میں موجود پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر شاہد جلال ایک امپریشنسٹ ہیں اور ان کی پینٹنگز کو دیکھتے ہوئے اگر ذہن میں مونے، رینائر، پسارو، ڈیگاس اور سسلے کی پینٹنگز یاد آتی ہیں تو اسے ان کی کمزوری نہیں کہا جا سکتا۔
شاہد جلال کو ان مصوروں سے ایک خاص نسبت ہے اور وہ غالباً یہ ہے کہ ان کی آنکھیں بھی منظر کو ایسے دیکھتی اور تفصیلات محفوظ کرتی ہیں جیسے کیمرے کا لینس کرتا ہے لیکن کیمرہ تمام تفصیلات کو جوں کا تو واپس کرتا ہے جب کہ مصوری میں مصور کی محسوسات رنگوں اور سٹروکس میں شامل ہو کر انھیں ایک نئی شکل دے دیتی ہیں۔
اس بات نے بعد میں بیسویں صدی کے دوران شروع ہونے والی جدید مصوری کی تمام تحریکوں کو شدید متاثر کیا۔
شاہد جلال پورٹریٹ یا سٹل لائف کرتے ہیں یا نہیں، مجھے اس کا علم نہیں لیکن اگر وہ کرتے ہیں تو ان کا کام دیکھنا یقیناً دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔
20110412
تیز ترین کار کی تیاری شروع
کاریگروں نے ایک ایسی کار کی تیاری کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا کہ وہ دنیا کی تیز ترین کار ہوگی۔
یہ کار جسے بلڈ ہاؤنڈ کا نام دیا گیا ہے، ایک ہزار میل یا سولہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر سفر کرے گی۔یہ کار آئندہ برس جنوبی افریقہ کے ناردرن کیپ کی ایک خشک جھیل پر تیز ترین کار بننے کی کوشش کرے گی۔
بلڈہاؤنڈ کے ڈیزائن کی تیاری گزشتہ تین برس سے جاری تھی۔ اس کار میں یورو فائٹر جنگی جہاز میں استعمال ہونے والے ٹائیفون جیٹ انجن ایک ہائی برڈ راکٹ کے اوپر نصب ہوں گے۔
ان انجنز اور راکٹ سے دو سو کلو نیوٹن توانائی حاصل ہوگی۔
اس منصوبے کے چیف انجینیئر مارک چیپمین کا کہنا ہے کہ ’یہ شاندار احساس ہے کہ اب اس کی ڈرائنگز ان افراد کو دی جا رہی ہے جو اس کار کو تیار کریں گے‘۔
اگر بلڈ ہاؤنڈ ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو وہ سنہ انیس سو ستانوے میں تھرسٹ سپر سانک کار کی جانب سے قائم کردہ سات سو تریسٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کا ریکارڈ توڑ دے گی۔
اگر بلڈ ہاؤنڈ ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کرنے میں کامیاب رہی تو وہ سنہ انیس سو ستانوے میں تھرسٹ سپر سانک کار کی جانب سے قائم کردہ سات سو تریسٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کا ریکارڈ توڑ دے گی۔
بلڈ ہاؤنڈ منصوبے پر کام کرنے والے تین افراد ایسے بھی ہیں جو تھرسٹ کار کے منصوبے پر کام کر چکے ہیں۔ یہ افراد ڈرائیور ونگ کمانڈر اینڈی گرین، پراجیکٹ ڈائریکٹر رچرڈ نوبل اور چیف ایروڈائنیمسٹ ران آئرز ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ بلڈہاؤنڈ کار برطانیہ میں کم رفتار کے تجربات کے لیے آئندہ برس کے پہلے چھ ماہ تک تیار ہو جائے گی جس کے بعد اسے جنوبی افریقہ بھیجا جائے گا جہاں وہ سنہ 2012 کے اواخر یا 2013 کے آغاز میں تیز ترین رفتار کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کی جائے گی۔
20110411
20110410
..امریکی دفتر خارجہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ. امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے عالمی سطح پر انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہےاس رپورٹ میں دنیا بھر کے ایک سو چورانوے ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کیونکہ سنہ دو ہزار دس کے بارے میں ہے اس لیے اس میں مشرق وسطی اور عرب ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانبھارتچین.امریکہ وزارتِ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ چوہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے ابتدائی کلمات میں کہا گیا ہے پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل میں ماورائے عدالت قتل، گمشدگیوں اور تشدد سرفہرست ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جیلوں کی ابتر صورتحال، طویل عرصے تک حراستیں، کمزور عدالتی نظام، استغاثہ اور جرائم کی تفتیش کرنے والوں کی ناقص تربیت اور شہرویوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازیاں ایسے مسائل ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔
کرپشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نچلی سطح پر حکومتی اداروں بشمول پولیس میں کرپشن عام ہے اور حکومت کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زنا، گھروں میں تشدد، خواتین کا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت سنجیدہ مسائل ہیں
مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیاں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ دو ہزار دس میں سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی گمشدگیاں جاری رہیں۔ ملک کے تمام حصوں سے لوگوں کے غائب ہوجانے کے واقعات سامنے آتے رہے۔ پولیس اور سکیورٹی اداروں نے لوگوں کو قید تنہائی میں رکھا اور ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ بہت سے سندھی اور بلوچی قوم پرست گمشدہ افراد میں شامل تھے
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کے بارے میں سماعت جاری رکھی اور مارچ میں حکومت نے اس سلسلے میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کمیش کے قیام کے باوجود اس مسئلے کے حل اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے بارے میں لوگوں میں کوئی امید پائی نہیں جاتی۔
رپورٹ میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسن تنظیم کے حوالے سے کہا گیا کہ اس سال سات سو پچاس افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے پینتس افراد کی لاشیں ملیں۔ اس تنیظم کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہزار ایک سے سن دو ہزار دس تک بلوچستان میں گیارہ ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ کیونکہ سنہ دو ہزار دس کے بارے میں ہے اس لیے اس میں مشرق وسطی اور عرب ملکوں میں احتجاجی تحریکوں کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستانبھارتچین.امریکہ وزارتِ خارجہ کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ چوہتر صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے ابتدائی کلمات میں کہا گیا ہے پاکستان میں انسانی حقوق کے مسائل میں ماورائے عدالت قتل، گمشدگیوں اور تشدد سرفہرست ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ جیلوں کی ابتر صورتحال، طویل عرصے تک حراستیں، کمزور عدالتی نظام، استغاثہ اور جرائم کی تفتیش کرنے والوں کی ناقص تربیت اور شہرویوں کی نجی زندگیوں میں دخل اندازیاں ایسے مسائل ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہے ہیں۔
کرپشن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نچلی سطح پر حکومتی اداروں بشمول پولیس میں کرپشن عام ہے اور حکومت کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زنا، گھروں میں تشدد، خواتین کا جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت سنجیدہ مسائل ہیں
مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیاں اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا بھی اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سنہ دو ہزار دس میں سیاسی بنیادوں پر لوگوں کی گمشدگیاں جاری رہیں۔ ملک کے تمام حصوں سے لوگوں کے غائب ہوجانے کے واقعات سامنے آتے رہے۔ پولیس اور سکیورٹی اداروں نے لوگوں کو قید تنہائی میں رکھا اور ان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے کہا کہ بہت سے سندھی اور بلوچی قوم پرست گمشدہ افراد میں شامل تھے
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے گمشدہ افراد کے بارے میں سماعت جاری رکھی اور مارچ میں حکومت نے اس سلسلے میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن قائم کیا۔
پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے سے رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کمیش کے قیام کے باوجود اس مسئلے کے حل اور گمشدہ افراد کی بازیابی کے بارے میں لوگوں میں کوئی امید پائی نہیں جاتی۔
رپورٹ میں وائس آف بلوچ مسنگ پرسن تنظیم کے حوالے سے کہا گیا کہ اس سال سات سو پچاس افراد لاپتہ ہوئے جن میں سے پینتس افراد کی لاشیں ملیں۔ اس تنیظم کا کہنا ہے کہ سنہ دو ہزار ایک سے سن دو ہزار دس تک بلوچستان میں گیارہ ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہوئے۔
20110409
20110408
20110407
20110406
20110405
Subscribe to:
Posts (Atom)